اجارہ کا بیان, امامت کا بیان

بلا وجہ کمیٹی کے لوگوں کا امام برتنقید کرنا

مسئله:کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ہمارے شہر میں ایک قاری صاحب ہیں پہلے امامت کرتے تھے اب کاروبار کرتے ہیں وضو میں آدھی ٹینکی پانی بہاتے ہیں کہتے ہیں ہمارا دل نہیں بھرتا ہے

دوسرا مسئلہ یہ کہ جب سے امامت چھوڑے ہیں کسی امام کو ٹھہرنے نہیں دیتے اس کے پیچھے پڑے رہتے ہیں نکتہ چینی بال کی کھال نکالتے ہیں جس سے جماعت میں نفاق پھوٹ پڑ جاتا ہے ابھی بھی دو پارٹی ہے آئے دن خلفشار ہوتا رہتا ہے جو شخص مسلمانوں میں پھوٹ ڈالے اس کے لئے شریعت کا کیا حکم ہے مطلع فرمائیں خود کو بڑا متقی پرہیز گارفخر کے ساتھ سمجھتے ہیں مستند قاری بھی نہیں صرف تخلص ہے نہ حافظ نہ عالم جعلی صوفی بنے ہیں۔

 میں قبر کے اوپر اگر بتی جلا سکتے ہیں یا نہیں؟

الجواب: 

1وضو کے فرائض،سنن، مستحبات ادا کرنے اور اعضاء کو ٹھنڈک پہنچانے کے علاوہ پانی گرانا اسراف و ناجائز ہے اگر قاری صاحب وضو میں پانی کا اسراف کرتے ہیں تو اس سے بچنا لازم ہے 

2اور قاری صاحب مذکور اگر اماموں پر صحیح اعتراض کرتے ہیں مثلا آج کل بہت سے امام وضو کرنے میں اعضاء کو دھوتے نہیں بلکہ بھگاتے ہیں یا عضو کا بعض حصہ دھوتے ہیں اور بعض حصہ صرف تر کر کے چھوڑ دیتے ہیں خاص کر پیشانی پر بال اگنے کی جگہ پر پانی نہیں ڈالتے صرف گیلا ہاتھ پھر لیتے ہیں۔کچھ لوگ الله اکبر کی جگہ آللہ اکبر یا اللہ اکبار کہتے ہیں۔ بعض امام نستعین کو نستاعین پڑھتے ہیں قرآت قرآن میں حروف کے مخادج کی رعایت نہیں کرتے اور دونوں پاؤں کی تین تین انگلیوں کا پیٹ زمین پر نہیں لگاتے اگر قاری اس قسم کی باتوں پر اعتراض کرتے ہیں تو وہ حق بجانب ہیں ان پر کوئی مواخذہ نہیں بلکہ وہ ثواب پاتے ہیں۔اور

 اگر بتی قبر پر سلگانے کے بارے میں فتاوی رضویہ جلد چہارم ص175 میں ہے

“اگر بتی قبر پر رکھ کر نہ جلائی جاۓ کہ اس میں سوء ادب اور بد فالی ہے۔

 عالمگیری میں ہے۔

ان سقف القبر حق المیت ۔

ہاں قریب قبر زمین خالی پر رکھ کر سلگائیں کہ خوشبو محبوب ہے۔

اور پھر ص221 میں ہے اگر بتی جلانا اور تلاوت قرآن کے وقت تعظیم قرآن کے لیے ہو يا وہاں کچھ لوگ بیٹھے ہوں اُنکی ترویح کے لیے ہو تو مستحسن ہے ورنہ فضول اور تضییع مال۔ میت کو اس سے کچھ فائدہ نہیں 

 واللہ تعالی علم 

 بحوالہ:فتاوی فیض الرسول 

ص:262

والله تعالى اعلم

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *