مسئلہ:ہمارے یہاں سنی تبلیغی جماعت کے نام سے ایک جماعت وجود میں آئی جنھوں نے ماہ رمضان المبارک میں چندہ کیا جس میں زکاۃ وغیرہ کا پیسہ بھی شامل ہے اسی خرچ سے دیہاتوں میں ٹیکسیوں پر جانا ؟
اور وہ غریب امام جو برسوں سے مع اہل و عیال وہاں امامت کرتے ہوں اگر وہ لوگ ان کی سرپرستی کو قبول نہ کریں تو عوام کو ورغلا کر کے وہاں سے امام کو ہٹوا دینا ؟
جب کہ مذکور امام سنی صحیح العقیدہ ہوں۔ ان کو کہا گیا کہ تم اس طرح نہ کرو تو کہتے ہیں۔کہ جو ہماری سر پرستی قبول نہ کرے گا ہم اس کو ہٹوا دیں گے تو بڑے بڑے سنی اداروں کے چندہ کا کیا حال ہو گا جب کہ سنیت کی بقاء ان سے وابستہ ہے ۔
الجواب: زکاۃ کے پیسے کو تبلیغ کے لئے ٹیکسی وغیرہ پر خرچ کرنا جائز نہیں کہ اس صورت میں تملیک نہیں پائی جاتی اور زکاۃ کی ادائیگی کے لئے تملیک شرط ہے. فتاوی عالمگیری جلد اول مصری ص 176میں ہے لا يجوز ان یبنى بالزكوة المسجد وكذا الحج وكل ما لا تمليك فيه ولا يجوز ان يكفن ميت ولا يقضى بها دين الميت كذا في التبين ملخصا -جو امام که سنی صحیح العقیدہ ہو اگر کسی سبب سے وہ سنی تبلیغی جماعت کی سر پرستی نہ قبول کر سکے تو صرف اس بنیاد پر اسے امامت سے ہٹوا دینا جائز نہیں .
وھو تعالی اعلم
بحوالہ -فتاوی فیض الرسول
ص:487 جلد 1 ۔
بغیر حیلہ شرعی کے زکوۃ کا پیسہ دینی کاموں میں خرچ کرنا
25
Jan