عملیات

بارہ ربیع الاول کے دن لنگر تقسیم کرنا.

بارہ ربیع الاول کے دن لنگر تقسیم کرنا.
12 ربیع الاول کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایصال ثواب کیلئے کھانا پکانا اور لوگوں میں تقسیم کرنا کیسا ہے؟
اس کا ثبوتِ قران و سنت سے ہے کہ نہیں؟
کیونکہ بعض لوگ اس کو بدعت ناجائز اور حرام کہتے ہیں نیز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایصال ثواب کے لیے 12 ربیع الاول کو کھانا پکا کر تقسیم کرنے میں زیادہ ثواب ہے یا کہ بغیر تعین حسب استطاعت فقراء کو رقم دینے میں زیادہ ثواب ہے ؟
الجواب.
باتفاق مسلمین اہل سنت ہر نیک کام خواہ نماز ہو یا ذکر و اذکار یا کھانا کھلانا وغیرہ کا ثواب دوسرے مسلمانوں کو بخشا جاسکتا ہے خواہ حیات ہوں یا نہ ہوں دونوں صورتوں میں جائز ہے فتاوی شامی میں ہے ۔
في البحر من صام أو صلى او تصدق و جعل ثوابه لغيره من الاموات والاحياء جاز و يصل ثوابها اليهم عند اهل السنة والجماعة
(جلد اول صفحه : ٦٦٦ ، مکتبہ رشیدیہ کوئنه)
بحر الرائق میں ہے جس نے روزہ رکھا نماز پڑھی یا صدقہ کیا اور اس کا ثواب اپنے مردوں اور زندوں کو پہنچا دیا تو جائز ہے اور اہل سنت و جماعت کے نزدیک اس کا ثواب ان مردوں اور زندوں تک پہنچتا ہے ۔ اس کے بعد فرمایا : :
و بهذا علم انه لا فرق بين أن يكون المجعول له ميتاً أو حياً
(جلد اول صفحه : ٦٦٦ ، مکتبہ کونته)
اور اس سے معلوم ہوا کہ جس کے لیے ثواب پہنچا رہے ہو وہ زندہ ہو یا مردہ اس سے کوئی فرق نہیں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایصال ثواب کرنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں جو عام لوگوں کو ایصال ثواب کرنے کا ہے بلکہ ایصال ثواب کرنے والے کی طرف سے یہ عقیدت کا اظہار ہے اور بطور شکرانہ یا نذرانہ ہے
علامہ شامی نے لکھا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایصال ثواب ، صحابہ کرام اور بزرگان دین کا معمول رہا ہے
: الا ترى أن ابن عمر كان يعتمر عنه صلى الله عليه وسلم عمراً بعد موته من غير وصية و حج ابن الموفق وهو في طبقة الجنيد عنه سبعين حجة وختم ابن السراج عنه صلى الله عليه وسلم أكثر من عشرة الاف ختمة وضحى عنه مثل فالک
(شامی، جلد اول صفحه : ٦٦٦) مکتبہ رشیدیہ کونته)
کیا تم نہیں دیکھتے کہ عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہا عمر بھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرمانے کے بعد بغیر وصیت کے عمرہ کرتے رہے اور ابن الموفق ، جو اولیاء کے طبقہ جنیدیہ میں سے ہیں ، نے ستر حج کیے اور ابن سراج نے دس ہزار سے زائد مرتبہ قرآن ختم کیے اور اتنی ہی مرتبہ قربانی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کی ۔ لہذا بارہ ربیع الاول شریف کے دن یا کسی بھی وقت ایصال ثواب کرنا جائز ہے اور جو لوگ جائز کام کریں ان کو دلیل دینے کی ضرورت نہیں بلکہ وہ لوگ جو اس جائز کام کو ناجائز اور حرام کہتے ہیں انہیں قرآن و حدیث سے ثابت کرنا ہو گا کہ یہ اعمال ناجائز و حرام ہیں ۔
حضرت شاہ ولی اللہ ، شاہ عبد العزیز اور حاجی امداد اللہ رحمة اللہ علیهم کی کتابوں میں بھی اس عمل کو جائز قرار دیا گیا ہے ۔ حضرت شاہ ولی اللہ نے ” الدر الثمین ” میں اپنے والد ماجد سے نقل کیا ہے کہ : كنت اصنع به طعاماً صلة بالنبي صلى الله عليه وسلم فلم يفتح لي سنة من السنين شئ اصنع به طعاماً فلم اجد الا حمصاً مقليا فقسمت بين الناس فرايته صلى الله عليه وسلم و بين يديه هذا الحمص متبهجا بشاشا.
(صفحه : ۶۱ ، میر محمد کتب خانه ، کراچی) میں حضور کی پیدائش کے دنوں میں کھانا بنایا کرتا تھا ایک سال مجھے تنگئی مال کا سامنا تھا جس کی وجہ سے میں کھانا تیار نہ کر سکا ۔ میں نے بھنے ہوئے چنے کے علاوہ کچھ نہ پایا تو یہی چنے لوگوں میں تقسیم کر دیئے ۔ بعد ازیں میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ وہ چنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہو رہے ہیں۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے صاحبزادے شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ” فتاوی عزیزیہ ” میں تحریر فرماتے ہیں : فقیر کے مکان پر ہر سال دو مجالس منعقد ہوتی ہیں ۔ ایک ذکر ولادت نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور دوسری ذکر شہادت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔ ان میں سینکڑوں افراد جمع ہوتے ہیں ، قرآن کریم و درود شریف پڑھا جاتا ہے . وعظ ہوتا ہے ، پھر سلام پڑھا جاتا ہے ، بعد ازاں کھانے پر ختم پڑھ کر حاضرین کو کھلایا جاتا ہے ۔
(جلد اول ، صفحہ ۲۰۰ اور ۱۹۹، ایچ ایم سعید کمپنی ، کراچی)
رشید احمد گنگوہی کے استاد شاہ عبدالغنی دہلوی لکھتے ہیں :
و حق آنست که نفس ذکر ولادت آنحضرت صلی الله علیه وسلم و سرور و فاتحه نمودن یعنی ایصال ثواب بروح پر فتوح سید الثقلین علیه السلام از کمال سعادت انسان است.
یعنی حق یہ ہے کہ مطلقا ذکر ولادت حضور رسالتماب صلی اللہ علیہ وسلم ، خوشی کا اظہار کرنا اور فاتحہ یعنی سید الثقلین علیہ السلام کی روح پر فتوح کو ایصال ثواب کرنا کمال سعادت انسانی ہے۔
جو لوگ اس جائز و مستحسن فعل کو ناجائز اور حرا کہتے ہیں اور ان ہی بزرگوں کو جن کے یہ اقوال اور معمولات نقل کیے گئے ہیں ، اپنا پیر ، استاذ اور پیشوا سمجھتے ہیں ، ان کے لیے لمحہ فکریہ ہے اور توبہ کا دروازہ کھلا ہے کہ وہ اپنے عقائد فاسدہ کو چھوڑ دیں اور توبہ کریں اور ان اکابرین کے مسلک پر عمل کریں جنہیں قرآن و حدیث پر عبور حاصل تھا ۔ دن متعین کرنے کے بارے میں قرآن کریم کی یہ آیت صریح ہے :
پارہ وما ابرئ نمبر 13۔سورہ نمبر 14 ابراھیم آیت نمبر 5۔وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اَنْ اَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ وَ ذَكِّرْهُمْ بِاَیّٰىمِ اللّٰهِؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ(5)
ترجمه کنزالایمان
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیریوں سے اجالے میں لا اور انہیں اللہ کے دن یاد دِلا بے شک اس میں نشانیاں ہیں ہر بڑے صبر والے شکر گزار کو۔
۔ یہ تو ہر سنی مسلمان کا عقیدہ ہے کہ ہر دن اور ہر رات بلکہ ہر زمانہ کی تمام ساعات اللہ تعالٰی ہی کے لیے ہیں لیکن ایام اللہ سے یہاں مراد خدا کے دو مخصوص و متعین دن ہیں جن میں اس کی خاص نعمتیں اس کے بندوں پر نازل ہوئیں ۔
دن متعین کرنے میں حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے حدیث مروی ہے اور یہ حدیث بھی صریح ہے :
سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صوم الاثنين فقال فيه ولدت و فيه انزل على۔ (مشكوة المصابيح ، كتاب الصوم ، باب صيام التطوع ، الفصل الأول)
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پیر کے دن روزہ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اسی دن میں پیدا ہوا اور اسی دن مجھ پر قرآن اترا۔
خلاصہ یہ ہے کہ کسی نیک کام کے لیے دن مخصوص کر لیا جائے تو شرعاً نہ تو وہ کام حرام ہوتا ہے اور نہ می دن متعین کرنا حرام ہے ۔ لہذا بارہ ربیع الاول شریف کے دن کھانا کھلانا زیادہ اچھا ہے ۔ کسی دوسرے دن بھی کھلایا جائے تو بھی کوئی حرج نہیں ۔ خلوص نیت کے ساتھ خواہ پوشیدہ طور پر کھلایا جائے یا ظاہر دونوں صورتیں جائز ہیں ۔ البتہ لوگوں کو رغبت دلانے کے لیے ظاہری طور پر کھلانا زیادہ اچھا ہے ۔
وقار الفتاویٰ جلد نمبر 1 ص نمبر 157/158/159