سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین اس مسئلے پر کہ بآواز بلند کھڑے ہو کر بعد نماز صلوٰۃ و سلام پڑھنا جائز ہے یا نہیں ؟ اگر جائز ہے تو حکم کب سے آگیا ؟کیا خلفاء راشدین نے اجتماعی کیفیت سے پڑھا ہے۔؟اور قرآن اس سلسلے میں کیا حکم دیتا ہے؟اور قرآن میں جو آیت درود و سلام ہے وہ دعا یہ ہے یا احکامی ؟۔یہ مسئلہ قرآن و حدیث کی روشنی میں واضح کیا جائے ۔ عین نوازش ہو گی۔
جواب
قرآن کریم میں درود و سلام پڑھنے کا مطلقا حکم ہے ۔ اس میں نہ کوئی وقت کی قید ہے نہ کسی حالت کی ۔ اور قرآن کے مطلق حکم میں کسی کو کوئی قید لگانے کا حق نہیں ۔لہٰذا مسلمان کو اختیار ہے کہ جو چاہے تو کھڑے ہو کر پڑھے یا چاہے تو بیٹھ کر، اجتماعی طور پر پڑھے یا تنہا۔اور احادیث میں جمعہ کے دن کثرت سے درود شریف پڑھنے کا حکم آیا ہے۔
مشکوٰة شریف میں ابو داؤد، نسائی ، ابن ماجہ اور بہیقی سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے بارے میں فرمایا ہے۔ فاكثروا على من الصلوة فيه{فی یوم الجمعہ} فان صلوتكم معروضة على۔(مشكوة المصابيح ، باب الاذان الفصل الثاني)یعنی جمعہ کے دن میرے اوپر درود میں کثرت کرو اس لیے کہ تمہارے درود میرے اوپر پیش کیے جاتے ھیں۔لہذا جو مسلمان قرآن و حدیث پر عمل کرتے ہوئے کھڑے ہو کر درود و سلام پڑھتے ہیں۔یہ قرآن کے اطلاق پر عمل ہے ۔ جو اس کو منع کرتا ہے وہ یہ ثابت کرے کہ کھڑے ہو کر درود و سلام پڑھنے کی ممانعت ہے۔یا سب کو مل کر پڑھنے کی ممانعت ہے۔
اسے قرآن و حدیث سے کوئی دلیل لاکر اپنا دعوی ثابت کرنا ہو گا۔اور وہ کوئی دلیل نہیں لا سکتا ۔ رہا یہ مطالبہ کہ خلفائے راشدین اور صحابہ نے یہ کام کیا ہے یا نہیں کیا ۔ یہ مطالبہ بھی غلط ہے اس لیے کہ قرآن و حدیث کے مطلق حکم پر عمل کرنے کے لیے ھیئت مخصوصہ پر مطالبہ کرنا۔ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص یہ مطالبہ کرے کہ صحابہ کرام نے آج کل جیسی مسجدوں میں کبھی نماز پڑھی ہے ؟یا آج کل جیسے قالین اور دریوں یا مزین و آراستہ کیے گئے فرش پر صحابہ کرام نے نماز پڑھی ہے ؟
یا قرآن لکھا ہوا دیکھ کر صحابہ نے تلاوت کی ہے یانہیں ؟وغیرہ وغیرہ شریعت مسلمہ کا اصول یہ ہے اور یہی اصول حدیث میں مخصوص ہے کہ “اصل اشیاء میں مباح ہوتا ہے ۔جو ممانعت کا قول کرے اسے دلیل لانا ہوتی ہے جائز بنانے کے لیے کسی دلیل کی حاجت نے نہیں ۔ لہذا منع کرنے والوں کو دلیل ضروری ہے اور درود و سلام پڑھنے والوں کے لیے قرآن وحدیث کا مطلق حکم ہی کافی ہے۔ اس کے علاوہ انہیں کسی دلیل کی حاجت نہیں ۔واللّٰہ تعالیٰ اعلم وقار الفتاویٰ جلد نمبر 1 ص نمبر