سوال:جامع مسجد اورنگ آباد میں نظام الاوقات کی پابندی کے ساتھ نماز پنجگانہ باجماعت ایک حافظ عالم کی امامت و اقتداء میں مدتوں سے ہوتی چلی آئی ہے اندریں صورت اگر مختلف مصلین کا بعد اختتام جماعت اسی جامع مسجد میں کسی دوسرے امام کی امامت و اقتداء میں جماعت ثانیہ کا اس بنیاد پر قائم کرنا کہ جامع مسجد بازار اور گزرگاہ عام پر واقع ہے تو کیا عند الاحناف از روئے فقہ جماعت ثانیہ کا قائم کرنا بلا کراہت جائز ہے یا ناجائز۔ 

الجواب:صورت مستفسرہ میں اورنگ آباد کی جامع مسجد اگر شارع عام یا بازار میں ہے جس کے لئے اہل معین نہیں تو بالا جماع اس میں جماعت ثانیہ ثالثہ اور رابعہ وغیرہ قائم کرنا جائز بلکہ شرعا یہی مطلوب ہے کہ جو لوگ آتے جائیں باذان جدید و تکبیر جدید جماعت کرتے جائیں۔اور اگر بازار یا گزرگاہ عام پر واقع ہونے کے باوجود اس کے اہل معین ہیں یعنی جماعت خاصہ سے مخصوص ہے تو امام کے سنی صحیح العقیدہ جامع شرائط امامت ہونے کی صورت میں قصداً جماعت اولی کو چھوڑ کر بطور عادت جماعت ثانیہ قائم کرنا ہرگز درست نہیں۔ہاں احیانا کسی عذر کے سبب جماعت اولی کی حاضری سے محروم رہے تو جماعت ثانیہ قائم ہو سکتی ہے۔

 هذا خلاصة ما قال الامام احمد رضا رحمة الله تعالى عليه في الجزء الثالث من الفتاوى الرضویه ۔

اور اگر امام مذکور وہابی غیر مقلد یا وہابی دیوبندی یا مودودی یا تبلیغی یا صلح کلی ہے تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا باطل ہے اسے امامت سے الگ کر دیں اور اگر عدم استطاعت کے باعث الگ نہ کر سکیں تو اپنی جماعت الگ قائم کریں۔

شرح عقائد نسفی ص 115 میں ہے۔لا كلام في كراهة الصلوة خلف الفاسق والمبتدع هذا اذا لم يؤد الفسق والبدعة إلى حد الكفر ۔اما اذا ادی اليه فلا كلام في عدم جواز الصلوة خلفه انتہی۔ والله اعلم

بحوالہ -فتاوی فیض الرسول

ص:341 جلد۔

Shopping cart
Facebook Instagram YouTube Pinterest