میں نے گزشتہ صفحات میں یہ بتانے کی سعی کی ہے کہ عموماً امراض اندر چھپے ہوئے جذبات اور جبلتوں کی بنا پر کس طرح پیدا ہوتے ہیں۔ اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہپناٹزم اور نفسیات کس طرح ان جبلتوں کو اپنی اصلی راہوں پر لا کر انسان کو صحت مند زندگی بسر کرنے کا موقع دیتے ہیں۔جہاں تک نفسیات کا تعلق ہے یہ الگ موضوع ہے مگر چونکہ اس کے ساتھ یپناٹزم کا تعلق بہت گہرا ہے اس لیے میں تھوڑا بہت اس پر لکھنا چاہتا ہوں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ نفسیات کس علم کو کہتے ہیں۔غالباً آپ تھوڑا بہت اس کے بارے میں ضرورجانتے ہوں گے اگر آپ نے نفسیات کا مطالعہ کیا ہے تو پھر بہت کچھ جانتے ہوں گے) ذہنی علالتوں میں ایسی کئی علالتیں ہیں جن میں ہیپناٹزم مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوتا اور اس طرح بہت سے ایسے عارضے ہیں جو نفسیاتی علاج سے درست نہیں ہوتے مگر ہپناٹزم سے درست ہو جاتے ہیں۔تحلیل نفسی کے ذریعے انسان کی علالت کی وجوہ کو لاشعور سے نکال کر شعور میں لایا۔جاسکتا ہے تاکہ مریض خود جان لے کہ اس کی علالت کی اصل وجہ کیا ہے۔اسی طرح تحلیل نفسی کے ذریعے ہم مریض کی ان الجھنوں کو نکال باہر کرتے ہیں جن کی راہ میں محتسب کھڑا ہوتا ہے۔ جب یہ الجھنیں لاشعور سے باہر نکل کر شعور میں آجاتی ہیں تو وہ مرض جو اس مخصوص الجھن سے تعلق رکھتا تھا ختم ہو جاتا ہے۔یعنی اس طرح محض نفس مریض کے اندر چھپی ہوئی اس تخریبی جبلت کو ختم کرکے جبلت تعمیر کو ابھارتا ہے اور مریض کو زندگی سےدلچسپی لینے کے لئے آمادہ کرتا ہے۔اس کے اندر سے فرار کی خواہش کو نکال کر زندہ رہنے کی خواہش پیدا کرتا ہے۔لیکن بسا اوقات یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس علالت کی وجہ کیا ہے وہ مرض سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتا مثلا ایک مریض یہ تو جانتا ہے کہ اس کے پیٹ کا درد دن رات غم اور افسردگی کا شکار رہنے کی بنا پر ہے۔وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس کے پیٹ کا دردامتحان میں ناکامی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے مگر یہ سب کچھ جاننے کے باوجود اس مرض سے چھٹکارا حاصل کرنا نہیں چاہتا۔ایسے ہی لوگوں کے لئے ہپنانزم موثر ثابت ہوتا ہے۔ ہپناٹسٹ کا کام مریض کو یہ بتاتا نہیں کہ وہ کن الجھنوں کی بنا پر علیل ہے یا اس کے لاشعور سے ان الجھنوں کو باہر نکالنا نہیں بلکہ ہپناٹسٹ مریض کے ذہن میں سجیشن کے ذریعے اتنی طاقت پیدا کرتا ہے کہ وہ ان امراض کا مقابلہ کرنے لگتا ہے۔وہ ہپناٹزم کے دوران یہ سجیشن بھی دے سکتا ہے کہ تم اپنے محبوب کو بھول جاؤ۔ وہ اس قابل نہیں کہ اسے یاد رکھا جائے اور مریض اپنے محبوب کو بھولنے میں کامیاب ہو جاتا ہےتو پھر اس کے عشق کی بنا پر جو علالت پیدا ہوتی ہے اس کا علاج بھی کیا جاسکتا ہےدوسرے الفاظ میں آپ یہ سمجھ لیجئے کہ تحلیل نفسی ایک دوا ہے جس کو برسوں تک کھانا پڑتا ہے اور ہپنا ٹزم آپریشن ہے جس کے ذریعے مریض کی وہ چیز ہی نکال پھینکی جاتی ہے جو اس کی علالت کا باعث تھی۔لیکن میں اس جگہ یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ بعض شدید ذہنی الجھنیں جن کا تعلق گہرے طور پر بچپن کے واقعات یا کسی جرم GUILT COMPLEX سے وابستہ ہو اس کے لئے تحلیل نفسی ہی واحد علاج ہے۔ ہیپناٹزم سے تحلیل نفسی میں مددلی جاسکتی ہے لیکن تحلیل نفسی سے ہپناٹزم میں مدد کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔جس طرح ہپناٹزم کا ایک مقام ہے۔اسی طرح تحلیل نفسی بھی اپنا مقام رکھتی ہے۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ بسا اوقات ہپناٹزم کے ذریعے محلل نفس کو لاشعوری باتیں باہرنکالنے میں آسانی ہو جاتی ہے مگر صحت مندی کا سہرا تحلیل نفسی ہی کے سر ہوگا نہ کہ پناٹزم کے سر۔ اس لئے جب آپ کو کسی ایسے مریض سے سابقہ پڑے جو ادویات سے بھی اچھا نہ ہو رہا ہو اور ہپنا ٹزم بھی ناکام ہو گیا ہو تو پھر اسے تحلیل نفسی کا مشورہ دیں تاکہ وہ کسی ماہر سے مشورہ کر کے اپنا علاج کروا سکے۔ایک بات یاد رکھیے کہ ہپناٹزم صرف انہی پر کامیاب ہو سکتا ہے جو دماغی طور پر مفلوج نہ ہوں یعنی پاگل یا نیم پاگل پر نہ ہپناٹزم کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کبھی کوشش کرنی چاہئے۔ اسی طرح ہسٹریا کے مریضوں پر بھی بہت محتاط ہو کر ہیپناٹزم کرنا چاہئے۔ اول تو کسی نو مشق کو ہسٹریا کا مریض لینا ہی نہیں چاہئے کیونکہ عموماً دوران ہپناٹزم ہسٹیریا کے مریض پر دورہ پڑ جاتا ہے جو بہت ہی نا خوش گوار تجربہ ثابت ہو سکتا ہے۔اس طرح ہپنا ٹزم سے پہلے یہ لازمی ہے کہ آپ کو مریض کے دل کی حالت کا مکمل علم ہو اگر مریض کمزور دل کا ہے یا کبھی اس پر دل کا دورہ پڑچکا ہے تو اسے کبھی ہپناٹائز نہ کریں بلکہ محض سجیشن سے علاج کریں کیونکہ غنودگی کے دوران مریض کا دوران خون بہت سست ہو جاتا ہے۔اگر وہ دوہری شخصیت SPLIT PERSONALITY کا مالک ہے تو پھر ممکن ہے وہ ہپناٹزم کے دوران اس قدر ہیجان خیز ہو جائے کہ اس کی حرکت قلب بند ہوجائے۔اس لئے ایسے مریض کو ہپناٹائز کرنے کی سعی نہ کریں۔
معمولی درد:
آپ کو زندگی میں معمولی درد کے مریض عام طور پر ملیں گے۔معمولی درد سر معمولی پٹھوں کا درد۔ ظاہر ہے ایسی صورتوں میں مریض صرف درد کی کوئی گولی کھا کر ہی آرام حاصل کر لیتا ہے اور کسی ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔اگر کسی وقت کوئی شخص آپ سے کہے کہ وہ درد محسوس کر رہا ہے تو آپ کے لئے سجیشن آزمانے اور مقبول ہونے کا بہترین طریقہ ہے۔آپ فورا کہیں کہ لاؤ میں درد ٹھیک کرتا ہوں۔مریض کو ٹھیک سے بٹھا دیں۔اس سے کہیں کہ وہ قطعی طور پر جسم کو ڈھیلا چھوڑ دے آنکھیں بند کرلے۔اس کے بعد اس کے ماتھے پر آہستہ سے ہاتھ رکھ کر محض ہلکے ہلکے پاسس دیں اور کہیں کہ تمہارا درد غائب ہو رہا ہے اب ٹھیک ہو چکا ہے۔اس طرح چند منٹ بعد اس سے کہیں کہ آنکھیں کھول دے۔عموما درد غائب ہو چکا ہو گا اگر پھر بھی باقی ہو تو دوبارہ ایسا کریں۔ اس طرح آپ قوت سجیشن سے ہی درد دور کر کے مقبول ہو سکتے ہیں اور لوگوں میں اعتماد پیدا کر سکتے ہیں
لكنت:
لکنت کبھی نفسیاتی ہوتی ہے کبھی کسی بخار کے بعد یہ مرض پیدا ہو جاتا ہے اور کبھی چہرے کے فالج سے بہر حال جو کچھ بھی ہو ہپناٹزم کے ذریعے پچاس فیصد مریض صحت یاب ہو سکتے ہیں۔ عام طور پر اس کے لئے کئی بار عمل کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اگر کئی بار عمل کرنے کے بعد بھی دوران ہیپناٹزم مریض اچھی طرح بات نہ کر سکے تو پھر سمجھ لینا چاہئے کہ مرض ہپناٹزم کے دائرہ عمل سے باہر ہے۔حسب معمول مریض کو ہپناٹائز کر کے علاج شروع کر دیں۔ اس کو سجیشن دیں اب تم مکمل طور پر سو گئے ہو۔تم میری باتوں کا جواب دو گے مگر سوتے رہو گے۔اب تم بے جھجک بالکل ٹھیک طور پر گفتگو کر سکو گے۔تمہاری زبان درست ہو گی تم بات کرتے ہوئے شرماؤ گے نہیں۔تم قطعی طور پر بلا دھڑک باتیں کرو گے۔ تمہارا مرض ختم ہو چکا ہے۔تمہارا خوف ختم ہو گیا ہے۔ تم اب قطعا نہ بکلاؤ گے۔ تمہارا نام کیا ہے(مریض اپنا نام بتائے گا دیکھا تم نے بالکل صحیح گفتگو کی۔ تم اب بالکل تندرست ہو جاؤ گے۔ اب میں تمہیں جگاتا ہوں۔جاگنے کے بعد تم اپنے آپ کو بالکل تندرست محسوس کرو گے۔اس کے بعد مریض کو جگا دیں۔جگانے کے فورا بعد مریض سے نارمل گفتگو کریں عام طور پر اس کی لکنت میں کافی فرق ہو گا۔اس طرح چند ماہ تک ہر ہفتے مریض پر عمل کیا جائے
دمہ:
دمے کا عارضہ بھی ذہنی عارضہ ہے۔ مسلسل تجربات اورتحقیقات کے بعد بھی طبی طور پر یہ معلوم نہ ہو سکا کہ دمے کی اصل وجہ کیا ہے اور دورے کیوں پڑتے ہیں۔بعض حالات میں اس کو موروثی مرض بھی کہا جاتا ہے مگر حالیہ تحقیقات نے یہ ثابت کیا ہے کہ دمے کے پچاس فیصد مریض محض نفسیاتی ہوتے ہیں۔ جب بھی ان کا لاشعور فرار چاہتا ہے۔انہیں دمے کا دورہ پڑ جاتا ہے۔کسی خاص مقام سے نفرت کسی خاص شخصیت سےنفرت کسی خاص واقعے سے خوف عموما دورہ پڑنے کے اسباب ہوتے ہیں۔ہپناٹزم کے ذریعے ہم دو طریقوں سے علاج کر سکتے ہیں۔اول براہ راست یعنی مریض کو عالم غنودگی میں صحت مند ہونے کی سجیشن دی جائے۔ دوم دوران ہپناٹزم مریض سے اس لاشعوری تصور کے احساس کو باہر نکالا جائے جس کی بنا پر یہ عارضہ ہوا ہے۔دوسری قسم کے علاج کے لئے ضروری ہے کہ معالج علم النفسیات اور تحلیل نفسی کے اصولوں سے پوری طرح واقف ہو۔ اس کے بغیر اگر اس نے کوشش کی تو ممکن ہے بجائے فائدے کے مریض کو الٹا نقصان پہنچ جائے اور وہ کسی نئی الجھن کا شکار ہو جائے اس لئے نو مشق اور علم النفسیات سے واقفیت نہ رکھنے والے اصحاب کے لئے براہ راست معالجہ ہی بہتر طریقہ ہےچنانچہ مریض کو حسب معمول ہپناٹائز کر کے اس طرح سجیشن دیں۔تم صحت مند ہو رہے ہو۔ تمہارے پھیپڑے صاف ہو رہے ہیں۔ تم اب بلا تکلف سانس لے سکو گے۔ تمہیں دورہ نہیں پڑے تم تندرست ہو چکے ہو۔بالکل تندرست تمہارے پھیپڑے بالکل صحت مند ہو چکے ہیں۔تمہارا ذہن کسی چیزسے اب خوف زدہ نہیں ہو گا۔اب میں تم کو جگاتا ہوں۔ جاگنے کے بعد تم اپنے آپ کو قطعی صحت یاب پاؤ گے۔اچھا اب جاگ جاؤ۔ اس کے بعد مریض کو جگا دیں اور اس سے کہیں کہ وہ اب مرض سے محفوظ ہو گیا ہے۔اگر کبھی اس کو دوبارہ دورہ پڑے تو فکر نہ کرے۔ ایک دوبار کےمزید عمل سے درست ہو جائے گا۔
تپ دق:
تپ دق کے متعلق گزشتہ صفحات میں کافی لکھ چکا ہوں اور یہ بات واضح کی جاچکی ہے کہ کس طرح دق کے مریض زندگی سے فرار حاصل کرنے کے لئے اپنے آپ کو اس مرض کا شکار بنا ڈالتے ہیں۔ دق کا مریض پہلے تو لاشعوری فرار کی بدولت بیمار پڑتا ہے۔مگر اس کو جب یہ علم ہو جاتا ہے کہ اسے دق ہو چکی ہے تو عارضے کے مہلک ہونے کا احساس اس کے ذہن پر مسلط ہو جاتا ہے اور وہ خوف زدہ ہو جاتا ہے۔وہ سوچتا ہے کہ اس کے پھیپڑوں میں شگاف پڑ چکے ہیں اور یہ خوف اس کی بیماری کو بڑھاتا ہے۔ ہیپناٹزم ہر حالت میں مفید ہے مگر یہ ضروری ہے کہ مریض باقاعدہ طبی علاج بھی کرواتا رہے اور کسی ماہر دق کے زیر علاج رہے۔ ہپناٹزم دق کے لئے دو صورتوں میں مفید ہوتا ہے۔ عام طور پر دق کے مریضوں کو آرام کی ضرورت ہوتی ہے لیکن آرام انہیں بہت کم ملتا ہے۔جب وہ بستر پر لیٹے بھی ہوں تو اس وقت بھی ان کے دماغ میں فکریں اورپریشانیاں بھری ہوتی ہیں جن کی وجہ سے ان کے جسم کی طاقت صرف ہوتی رہتی ہے۔ ہیپناٹزم کے ذریعے اگر چند گھنٹوں کے لئے مریض پر غنودگی طاری کر دی جائے تو اس کے جسم میں ابتدائی قوت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ علالت کا مقابلہ کر سکتا ہے۔کیونکہ اسے حقیقی آرام ملتا ہے نہ صرف جسمانی بلکہ دماغی بھی۔ دوم ہیپناٹزم کے مریض کے ذہن سے وہ خواہشات اور جبلی نفرت دور کی جا سکتی ہے جس کی بنا پرمریض نے راہ فرار اختیار کی ہے۔اگر معالج محنت سے کام لے تو عام طور پر مریض خود ہی اپنی زندگی کے حالات بتا دیتا ہے اور ان حالات سے معالج کو وہ بات معلوم ہو جاتی ہے جس کی بنا پر اس کو مرض سے واسطہ پڑا۔ اس علاج کے لئے محنت اور صبر کی ضرورت ہے۔ عام دردوں کی طرح محض ایک دو بار عمل کرنے سے مریض صحت مند نہیں ہوتا۔ بلکہ کئی کئی ماہ تک علاج کرتا ہوتا ہے۔ جس طرح یہ مرض آہستہ آہستہ بڑھتا ہے اس طرح آہستہ آہستہ درست بھی ہوتا ہے۔ معالج کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ مریض کے ایکسرے کا معائنہ کرتا رہے اگر وہ خود ایکسرے سمجھ نہیں سکتا تو کسی ماہر کی رپورٹ کو دیکھتا رہے تاکہ اسے یہ معلوم ہو تا رہے کہ مریض اس کے علاج سے کس حد تک متاثر ہو رہا ہے۔ دق یا اس قسم کے مرض کا علاج شروع کرنے سے پہلے آپ کو طبی معلومات سےواقف ہونا ضروری ہے۔اگر آپ صرف ہیپناٹسٹ ہیں تو پھر کسی خطرناک علاج کی سعی نہ کریں کیونکہ طبی معلومات نہ ہونے کی صورت میں آپ کے لئے یہ بہت مشکل ہے کہ آپ علالت کی نوعیت کو صحیح طریقے سے سمجھ سکیں لہٰذا ایسی صورت میں آپ خود کو کسی ڈاکٹر سے وابستہ کرلیں۔اس طرح آپ امدادی علاج کر سکیں گے کیونکہ اس قسم کے امراض میں ادویاتی علاج بھی جاری رکھنا ضروری ہوتا ہے صرف ہیپناٹزم سے ہی علاج کرتا عقل مندی نہیں۔آپ کا مقصد تو صرف مرض کو رفع کرتا ہے اور مرض رفع کرنے کے لئے آپ کے دل میں یہ بات پیدا نہیں ہونی چاہئے کہ میں بھلا ادویات کے استعمال کی اجازت کیوں دوں۔ مرض تو میرے علاج سے درست ہو گا اور سہرا کسی ادویاتی علاج کے سربندھے گا۔یہ نظریہ قطعی طور پر غلط اور خود غرضی پر مبنی ہے۔اگر آپ کے پاس ایک دق کا مریض آتا ہے جسے اے پی دی جا رہی ہے تو کیا آپ اس کی اے پی بند کروا کے ظلم نہ کریں گے؟جس طرح ادویاتی علاج سو فیصدی کامیاب نہیں ہوتا اسی طرح جراثیمی علالتوں میں ہپناٹزم بھی سو فیصدی علاج نہیں ہے۔ یہ ایک امدادی علاج ہے جس سے آپ مریض کے ذہن کو اپنی علالت کے خلاف لڑنے پر آمادہ کرتے ہیں۔اس کے اندر زندگی کی رمق پیدا کرتے ہیں۔اس طرح ایک ہپناٹسٹ کے لئے ادویات بھی امدادی علاج ہیں کیونکہ ادویات سے مریض کے اندر فوری طور پر پیدا ہونے والی خرابیوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔اس طرح ہر دو علاج ساتھ ساتھ جاری رہنے چاہئیں۔ وہ مریض جو محض ادویات سے دو سال میں ٹھیک ہو گا، ہپناٹزم کے ساتھ بہ حیثیت امدادی علاج چھ ماہ میں ٹھیک ہو جائے گا اور وہ مریض جس پر ادویات قطعی طور پر ناکام ہو چکی ہیں یعنی جس کا لاشعور بیمار رہنا چاہتا ہے۔ہپنا ٹزم کے ذریعے اس کے لاشعور کی قوت تخریب کو قوت تعمیر میں تبدیل کر کے زندگی کے قریب لایا جا سکتا ہے۔یاد رکھیے اس قسم کی خطرناک بیماریوں میں مریض کے دل پر ایک قسم کا خوف بھی طاری رہتا ہے۔خوف اور لاشعوری فرار دونوں مل کر مریض کی قوت مدافعت کو صفر کے برابر کر دیتے ہیں اور دنیا کی کوئی دوا مریض کے دل سے خوف کو دور نہیں کرسکتی۔اس کے لئے ہیپناٹزم ایک نعمت ہے۔دق میں بستر پر آرام بہت ضروری ہے اس لیے بڑھتی ہوئی علالت میں مریض کو اپنے ہاں نہ بلوائے بلکہ خود اس کے گھر اور بستر پر ہی علاج کرنا بہتر ہے۔اس طرح وہ اس تکان سے بچ سکے گا جو اسے چلنے کی وجہ سے برداشت کرنی پڑے گی۔جب مریض کی حالت چلنے کے قابل ہو جائے تو پھر اسے اپنے ہاں بلوایا جاسکتا ہے۔مریض کے کھانے پینے کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کیونکہ اچھی خوراک اس مرض میں ایک بہت بڑا اور اہم جزو ہے۔یہ سب کچھ سمجھ لینے کے بعد آپ علاج کرنے کے لئے تیار ہوں۔حسب معمول مریض کو ہپنا ٹائز کریں۔اس کو سجیشن دیں تمہارا مرض اچھا ہو رہا ہے۔۔۔ تم بہت جلد علالت سے چھٹکارا حاصل کر لوگے کیونکہ آج کے بعد تم خود کو تندرست محسوس کرنےلگو گے۔ تم رات کو با آسانی سو جاؤ گے بالکل آرام دہ نینداسی طرح اسے کسی ایک مخصوص مقام پر سجیشن دیں۔ سجیشن بہت محدود دیں زیادہ ہدایت دینے سے اچھے اثرات جلد ظاہر نہیں ہوتے۔اس طرح ہر عمل میں سجیشن بدلتے جائیں۔ یعنی پہلی بار ا چھی نیند کی سجیشن دی جائے۔ تو دوسری بار اسے پیٹ بھر کھانے کی سجیشن دیں۔ اگر آپ کا مریض اچھی طرح سونے لگے گا تو آپ دیکھیں گے کہ اس کی صحت مندی کی رفتار بڑھنے لگے گی۔ چند بار عمل کرنے کے بعد اس کو حاکمانہ ہدایات دینی شروع کریں،یعنی اس سے یہ کہنے کے بجائے کہ وہ اب اچھا ہو رہا ہے اور اب وہ اچھی طرح سونے لگے گا۔اس سے کہیں کہ اب تم اچھے ہو چکے ہو تم آج رات آٹھ بجے سو جاؤ گے اور صبح آٹھ بجے سے پہلے نہ اٹھو گے۔ تمھیں آج بخار نہ ہوگا۔ ہرگز نہیں تم کوآج سے کھانسی نہ ہوگی، ہرگز نہیں ہو گی وغیرہ وغیرہ۔ اگر آپ کسی اسپتال سے تعلق قائم کرکے اجتماعی معالجہ شروع کردیں تو زیادہ بہتر اور زیادہ تعداد میں مریض صحت مند ہو سکتے ہیں( اجتماعی ہپناٹزم پر آگے چل کر لکھوں گا)
فالج:
فالج اگر بہت پرانا نہ ہو تو عموما ہیپناٹزم سے فائدہ ہوتا ہے لیکن پرانے فالج پر ہپناٹزم ہے کار ہوتا ہے۔فالج کی بہت ساری وجوہ ہیں۔اس لئے صرف وہی مریض لینے چاہئیں جن کی ہسٹری سے کسی عضوی خرابی کا بہت کم اظہار ہوتا ہو۔ عام طور پر فالج دماغی رسولی یا دماغ کی کسی نس یا ریشے کی خرابی سے پیدا ہوتا ہے لیکن لاشعوری فالج کے کیس بھی پائے جاتے ہیں۔فالج کے لئے ہپناٹائز کرکے ٹیسٹ کرنا لازمی ہے۔فالج کے مریض کو کبھی بہت گہری نیند میں نہ لے جائیں۔ اس کے بلڈ پریشر اور دل کے فعل کو اچھی طرح جانچ لیں۔اگر دل پر بھی اثر ہو چکا ہے تو ہرگز عمل نہ کریں۔حسب معمول مریض کو ہپناٹائز کر کے اس کے مفلوج حصّے پر توجہ دیں۔ کچھ دیر پاسس دیتے رہیں۔ مروڑوں اور فالج میں پاسس بہت کامیاب ہوتے ہیں۔مریض سے کہیں کہ میں اس حصے کے قریب سلگتی ہوئی آگ لاؤں گا۔ تم کو آگ کی تپش محسوس ہوگی۔سخت تپش۔تم اس کی جلن بری طرح محسوس کرو گے تمہارا یہ حصہ جل رہا ہے۔تم اس کو برداشت نہ کر سکو گے۔اس کے بعد اپنی انگلی مریض کے مفلوج حصے پر آہستہ آہستہ رکھیں اور ساتھ ہی کہیں۔میں آگ کا انگارہ رکھ رہا ہوں۔تم جلن محسوس کرو گے یہ دیکھو۔اگر مریض اپنے اس حصے کو حرکت دے کر ہٹانا چاہے توسمجھ لیں کہ مریض قابل علاج ہے۔اگر مریض کسی قسم کا احساس نہ کرے تو پھر ہپناٹزم کےدائرہ عمل سے باہر ہے۔اگر مریض نے اپنے اس حصے کو قدرے حرکت دی ہے تو پھر فوراً اس کے صحت مند بازو پر توجہ دیں۔اس سے کہیں کہ میں تمہارا یہ بازو اٹھا رہا ہوں۔اس کے بعد بازواٹھائیں۔یہ بازو سخت ہو رہا ہے۔یہ نہیں اکڑا رہے گا۔اس کے بعد بازو چھوڑ دیں۔مریض کا بازو وہیں رہے گا۔کچھ دیر بعد کہیں اب میں اس کو چھوڑتا ہوں اور جب میں چھوڑوں گا تو یہ فورا گر پڑے گا۔لو اب چھوڑ رہا ہوں۔اس کے بعد بازو کو چھوڑ دیں۔اس کا بازو ڈھیلا ہو کر گر پڑے گا۔اگر فورا نہ گرے تو ذرا ہاتھ سے نیچے دبا کر کہیں،اب ڈھیلا ہو گیا ہے اور اپنی جگہ پر گر پڑے گا۔ اس کے بعد مریض کے مفلوج بازو کو اٹھا کر کہیں۔ اوپر اٹھایا تھا۔تم اسکوباقاعدہ حرکت دے چکے ہو۔تم اس کو بلا تکلف ہلا سکتے ہو اب تم اس کو اوپر اٹھاؤ۔ ہاں اور ذرا اور یہ اٹھ رہا ہے۔بہت خوب۔اب اسے واپس اپنی جگہ پر لے جاؤ۔ جب تم جاگو گے تم اپنے آپ کو تندرست پاؤ گے۔ صحت مند اور تندرست تم اپنا بازو ہلا سکو گے۔بہت آسانی ہے۔ اب جاگ جاؤ گے، مریض کو جگا کر اس اب میں یہ بازو اٹھاتا ہوں یہ بازو یہاں ہی اکڑا رہے گا۔ یہ سخت ہو رہا ہے۔ یہ بالکل لکڑی کی طرح سخت ہو گیا ہے۔ تم اس کو نیچے نہیں گر ا سکو گے۔ یہ نیچے نہیں گرے گا۔ اس کےبعد بازو کو چھوڑ دیں وہ وہیں اکڑ جائے گا۔ یہ وہی بازو ہے جو مفلوج تھا اور مریض اس کو حرکت بھی نہیں دے سکتا تھا۔ اب اس کے اندر جان پیدا ہو چکی ہے۔ اس کے بعد پہلے بازو کی طرح اسے بھی نیچے گرادیں اور پھر کہیں تم صحت مند ہو چکے ہو تم نے اپنا مفلوج بازو اوپر اٹھایا تھا تم اس کو باقاعدہ حرکت دے چکے ہو۔تم اس کو بلا تکلف ہلا سکتے ہو ہاں اور ذرا یہ اٹھ رہا ہے۔بہت خوب۔ اب تم اسے اپنی جگہ پر واپس لے جاؤ جب تم جاگو گے تو اپنے اپ کو تندرست پاؤ گے۔صحت مند اور تندرست تو ہم اپنا بازو ہلا سکو گے بہت اسانی سے اب تم جاگ جاؤ گے۔مریض کو جگا کر اس سے کہیں تم نے اپنے بازوں کو حرکت دی تھی اب بھی دے سکتے ہوحرکت دے کر دیکھو۔عام طور پر مریض معمولی سی حرکت دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔اس کےبعد دو تین بار عمل کریں۔مریض صحت مند ہو جائے گا۔