علم و تعلیم, فتاوی رضویہ

اعلی حضرت کا جواب دینے کا انداز

مسئلہ۲۰ : حامی دین متین ماحی البدعۃ والشرک محی الدین جناب مولینٰا زاد اللہ شرفہ ۔ بعد ہدیہ سلام و سنتِ رسول علیہ الصلوۃ والسلام معلوم فرمائیں ایک فتوی جس میں چند سوال ہیں آنجناب کی خدمت میں پیش کرنے کا قصد ہے اگرچہ مدارس اسلامیہ و جائے اِفتاء تو ہندوستان میں کثیر ہیں ولیکن بندہ کی خوشی یہ ہے کہ آنجناب کی لسان ترجمان فیص رسان و کلک سے جواب ظہور میں آئے اس وقت چونکہ رمضان شریف ہے روزہ کی وجہ سے شاید جواب میں دقت وکلفت ہوبدیں خیال مقدم یہ جوابی خط ارسال کرکے آنجناب کی مرضی مبارک حاصل کی جاتی ہے کہ اگر فتوٰی اس وقت رمضان شریف میں بھیجا جائے تو کیا اس وقت جواب مل سکتا ہے یا کہ بعد رمضان شریف ؟ اگر بعد رمضان شریف فتوٰی بھیجا جائے تو شوال کی کتنی تاریخ تک بھیجا جائے؟ آپ کے جواب کا انتظار ہے۔ جیسا آپ فرمائیں گے ویسا کیا جائے گا۔ فقط زیادہ والسلام ، جوابی خط ارسال ہے۔


الجواب : جناب من سلمکم وعلیکم السلام ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ ، رمضان مبارک میں بھی فتاوے بفضلہ تعالٰی لکھے جارہے ہیں،آپ نے استفتاء نہ بتا کس مضمون کا ہے۔ بعض ضروری وفوری ہوتے ہیں، بعض مہلت و فرصت کے، بعض ایسے کہ جواب دینا ہی بے کار یا ضروریات کے آگے ناقابلِ اعتبار غرض فتاوٰی کہ پوچھے جاتے ہیں، ان کی حالتیں بہت مختلف ہیں، لوگ گمان کرتے ہیں کہ ہمارے ہر فتوٰی کا جواب ملنا شرعاً لازم ہے اور وہ بھی تحریری، اور حضرت سیدنا ابن مسعود علیہ الرضوان فرماتے ہیں: من افتی فی کل مااستفتی فھو مجنون ۱ ؎۔ جو ہر استفتاء کا جواب دے مجنون ہے۔
یہ اس لیے لکھ دیا کہ اگر آپ نوعیتِ سوال سے مطلع فرماتے تو جواب لاونعم ودیر وشتاب معین ہوسکتا۔ والسلام۔