مسئلہ ۷: ۲۸ ذوالقعدہ ۱۳۲۱ھ
ذیل میں جو حدیث تحریر کی جاتی ہے اس کی صحت اور غیر صحت کی نسبت اختلاف ہے۔ لہذا علمائے دین محمدی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں گزارش ہے کہ اگر حدیثِ مذکور صحیح ہے تو اپنے مُہر و دستخط فرمائیں۔ اور جو شخص منکر اس حدیث کا ہو اس کی نسبت شرع شریف میں کیا حکم ہے؟ بینّوا توجروا۔ ” عن انس قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم من قطع میراث وارثہ قطع اللہ میراثہ من الجنّۃ یوم القیامۃ ۱ رواہ ابن ماجۃ البیھقی فی شعب الایمان ” حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے اپنے وارث کو میراث سے کاٹا اللہ تعالٰی قیامت کے دن جنت سے اس کی میراث کو کاٹے۔ اس کو ابن ماجہ اور بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کیا۔-(ت)
(۱ مشکوۃ المصابیح باب الوصایا الفصل الثالث ص ۲۶۶ و ابن ماجہ کتاب الوصایا ۲ /۹۰۲ )
الجواب : یہ حدیث ابن ماجہ نے اپنی سُنن ابواب الوصایا باب الحیف فی الوصیۃ میں یوں روایت کی۔ ” حدثناسوید بن سعید ثنا عبدالرحیم ابن زید العمٰی عن ابیہ عن انس ابن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم من فرمن میراث وارثہ قطع اللہ میراثہ من الجنۃ یوم القیامۃ ۲ سوید ابن سعید عبدالرحیم ابن زید سے حدیث بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنے باپ سے وہ حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو آدمی اپنے وارث کی میراث سے بھاگے اللہ تعالٰی قیامت کے دن جنت سے اس کی میراث کاٹے۔
( ۲ ؎ سنن ابن ماجہ کتاب الوصایا باب الحیف فی الوصیۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲ /۹۰۲)
اور دیلمی نے مسند الفردوس میں انہیں انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بایں الفاظ روایت کی ۔ ” من زوی میراثاعن وارثہ زوی اللہ عنہ میراثہ من الجنۃ ” جو اپنے وارث کی میراث سمیٹے تو اللہ جنت سے اس کی میراث سمیٹ لے گا۔
( ۱ ؎ الفرودس بمأثور الخطاب حدیث نمبر ۵۷۱۳ دارالکتب العلمیہ بیروت۳/ ۵۴۸ )
بطور محدثین اس کی سند میں کلام ہے۔
” فزید یضعف وابنہ شدید الضعف لاجرم ان قال السخاوی للحدیث بعد ایرادہ فی المقاصد الحسنۃ ھو ضعیف جدّا وقال المناوی فی التیسیروالعزیزی فی السراج المنیر ضعفہ المنذری ” زید ضعیف ہیں اور ان کے لڑکے شدید ضعیف اسی لیے امام سخاوی نے اس حدیث کو مقاصد حسنہ میں نقل کرنے کے بعد فرمایا یہ حدیث بڑی ضعیف ہے۔ اور مناوی نے تیسیر میں اور عزیزی نے سراج منیر میں منذری کے حوالے سے اس کو ضعیف کہا۔
( ۲ ؎ المقاصد الحسنہ تحت حدیث ۱۱۲۸ دارالکتب العلمیہ بیروت ص۴۱۳ )
( ۳ ؎ التیسیر شرح الجامع الصغیر ۸۸۸۶ مکتبہ الامام الشافعی۲/ ۴۳۳ )
(السراج المنیر شرح الجامع الصغیر من فر من میراث وارثہ المطبعۃ الازہریہ المصریہ مصر ۳/ ۳۴۵)
مگر اس کے معنی عند العلماء مقبول ہیں۔ مشکوۃ میں اسے بروایت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سنن ابن ماجہ اور بروایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ شعب الایمان سے ” مذکور فی السوال ” کا لفظ نقل کیا اور شراح نے اس کی توجیہات لکھیں اور ابن عادل نے اپنی تفسیر میں اسے بصیغہ جزم رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف نسبت کرکے اس سے تحریم اضرار فی الوصیۃ پر استدلال کیا۔ اور یہ آیت کریمہ سے اس کی تاکید کی۔ حیث قال: ” الاضرار فی الوصیۃ علی وجوہ ” ان یوصی باکثرمن الثلث اویقر بما لہ لا جنبی ، اوعـلی نفسہ بدین لا حقیقۃ لہ اوبان الدین الذی کان لہ علی فلان استوفاہ ، اویبیع بثمن رخیص، او یشتری بغال ، کل ذٰلک لان لایصل المال الی الورثۃ ، او یوصی بالثلث لا لوجہ اللہ لکن لتنقیص الورثۃ فھذا ھوالاضرار فی الوصیۃ وقال علیہ افضل الصلوۃ والسلام من قطع میراثا فرضۃ قطع اللہ میراثہ من الجنۃ ویدل علی ذلک قولہ تعالٰی بعد ھذہ الایۃ تلک حدود اللہ ۱ ؎ اھ ملخصاً ” اضراروصیت میں چند طریقے پر ہوتا ہے ۔ (۱) ثلث سے زائد وصیت کرے (۲) اجنبی کے لیے مال کا اقرار کرے۔(۳) یا فرضی قرض کا اقرار کرے (۴) وہ قرض جو دوسرے پر تھا اس کو وصول کرچکا ہو۔(۵) کسی چیز کو سستا بیچ دے (۶) مہنگا خریدے (۷) ثلث کی وصیت کرے۔ مگر رضائے الہی کے لیے نہیں ورثاء کو ضرر دینے کے لیے کہ میرے بعد مال انہیں نہ ملے ، تو یہ سب وصیت میں اضرار کی صورتیں ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اللہ تعالٰی کے مقرر کردہ حصہ کو قطع کرتا ہے اللہ تعالٰی اس کا حصہ جنت سے قطع کردے گا۔ اس کے بعد والی آیت بھی اس کی تائید کرتی ہے کہ اللہ تعالی فرماتاہے۔ یہ اللہ تعالی کے حدودہیں۔ اھ ملخصاً
( ۱ ؎ الزواجرعن اقتراف الکبائر بحوالہ ابن عادل باب الوصیۃ دارالفکر بیروت ۱/ ۴۴۰)
امام ابن حجر مکی نے زواجرعن اقتراف الکبائر میں اسی تمسک و تائید کو مقرر رکھا ہے۔ اور قصد حرمان ورثہ کو حرام بتایا ، نیز تیسیر میں زیرحدیث فرمایا۔ ” افادان حرمان الوارث حرام وعدّہ بعضھم من الکبائر ”۔ پتہ چلا کہ وارث کو محروم کر ناحرام ہے اور بعض علمائے کرام نے اس کو گناہ کبیرہ بتایا ہے۔
( ۲ ؎التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت حدیث ۸۸۸۶ مکتبہ الامام الشافعی ریاض ۲/ ۴۳۳)
عزیزی میں ہے۔ ” فاذا حرمان الوارث حرام ۳ ؎۔ وارث کو محروم کرنا حرام ہے۔
(۳ ؎ السراج المنیر تحت حدیث ۸۸۸۶ مکتبہ الامام الشافعی ریاض ۳/ ۴۴۵ )
منکر حدیث مذکور اگر ذی علم ہے اور بوجہ ضعف سند مکدم کرتا ہے فی نفسہ اس میں حرج نہیں مگر عوام کے سامنے ایسی جگہ تضعیف سند کا ذکر ابطال معنی کی طرف منجر ہوتا ہے اور انہیں مخالفتِ شرع پر جری کردیتا ہے۔ اور حقیقۃً “قبول علماء” کے لیے شانِ عظیم ہے کہ اس کے بعد ضعف اصلامضر نہیں رہتا۔ ” کما حققناہ فی الہاد الکاف فی حکم الضعاف ” ( جیسا کہ اس کی تحقیق ہم نے اپنے رسالہ الہاد الکاف فی حکم الضعاف میں کردی ہے۔ ت)
اور اگر جاہل ہے بطورِ خود جاہلانہ برسر پیکار ہے تو قابلِ تادیب و زجرو انکار ہے کہ جُہّال کو حدیث میں گفتگو کیا سزاوار ہے۔ وعیدِ حدیث اپنی اخوات کی طرح زجرو تہدید یا حرمانِ دخول جنت مع السابقین یا صورت قصد مضارّت بمضادّت شریعت پر محمول ہے۔ ” والاٰخراحب الی والاوسط وسطاوالاوّل لایعجبنی یطلع علٰی ذلک من راجع کلام الامام البزازی فی الوجیز فیما یذکر الفقھاء من الکفار ” آخری مجھے سب سے زیادہ پسند ہے ۔ درمیان والا متوسط ہے اور پہلا مجھے پسند نہیں۔ اس پر وہ شخص مطلع ہوگا جو امام بزازی کے کلام کی طرف رجوع کرے جو انہوں نے وجیز میں کفار سے متعلق اقوال فقہاء ذکر کیے ہیں۔(ت)
اقول : یا یہ کہ وہ قصور جناں کہ برتقدیر اسلام کفّار کو ملتے اور ان سے خالی رہ کر مومنین کو بطور مزید عطا ہوں گے ان سے حرمان مراد ہو۔ ” وھذاان شاء اللہ تعالٰی احسن و امکن وابین و ازین ” ( اور ان شاء اللہ یہ سب سے بہتر، سب سے مضبوط، سب سے واضح اور سب سے خوبصورت ہے۔ ت) واللہ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔