میں نے گزشتہ صفحات میں محبت اور نفرت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ دونوں جذبے انسان کے اندر خود کو ہپناٹائز SELF HYPNOTISE کرنے سے جنم لیتے ہیں۔کیونکہ اگر محبت کوئی ایسی چیز ہوتی جس کا تعلق بجائے ذہن کے صرف روحانی کشش سے ہوتا تو پھر ہپناٹزم کا اس پر کوئی اثر نہ ہونا چاہئے تھا۔لیکن اس کے برعکس ایسا ہوتا ہے کہ ہپناٹزم کے ذریعے کسی سے محبت یا نفرت کروائی جاسکتی ہے بشرطیکہ معمول اس کا خواہش مند ہو۔اس لئے ازدواجی الجھنوں میں ہپناٹزم کا بہت اہم دخل ہے کیوں کہ اس کا تعلق بھی ذہنی محبت یا نفرت سے ہوتا ہے۔اگر میاں بیوی دونوں ہی اپنی زندگی کو استوار کرنا چاہیں تو پھر ہپناٹزم ان کے لئے بہترین علاج ثابت ہو سکتا ہے۔ عام طور پر ازدواجی زندگی کی نفرت سطحی ہوتی ہے۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ یہ الجھنیں نفسیاتی علالتوں سے پیدا ہوں۔ البتہ اگر ان الجھنوں کا علاج بروقت نہ کیا جائے تو پھر یہ الجھنیں عمیق ہو جاتی ہیں۔اگر شوہر اپنی اہلیہ سے اکتا چکا ہو مگر چاہتا ہو کہ اس کی ازدواجی زندگی خراب نہ ہو تو پھر اس کی نفرت جو اکتاہٹ سے پیدا ہوتی ہے عموما ہپناٹزم سے درست ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر کوئی گہری چھپی ہوئی نفسیاتی الجھن کی بدولت یہ نفرت ہو تو پھر ہپناٹزم کا اثر عارضی ہوتا ہے یعنی اگر ایسے شخص کو ہپناٹائزکر کے اس کی نفرت کو محبت میں بدلا جائے تو پھر وہ اس وقت تک محبت کرتا رہے گا جب تک اس کی الجھن دوبارہ نہ ابھر آئے کیوں کہ ہیپناٹزم کی سجیشن سے وہ الجھن لاشعور کی عمیق گہرائیوں میں دب جاتی ہے۔ لیکن عموما اس قسم کے کیس بہت کم ہوتے ہیں۔اس لئے ہپناٹزم کے ذریعے اجڑی ہوئی زندگی آباد ہو سکتی ہے۔اس کے ذریعے یہ جوڑے زندگی کے ایسے موڑ پر لائے جاسکتے ہیں جہاں سے وہ زندگی کو از سر نو شروع کر سکتے ہیں۔جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ بعض اوقات کوئی گہری نفسیاتی الجھن ہوتی ہے اور عام طور پر سطحی نفسیاتی ردعمل ہوتا ہے اس لئے اگر فریقین کی تمام زندگی کی چھان بین کر لی جائے تو علاج میں آسانی ہوتی ہے۔ اگر آپ میاں بیوی سے ان کی شکایات سنیں گے تو جو وجہ وہ بتائیں گے وہ عموما غلط ہوگی کیونکہ اگر انہیں خود وجہ کا علم ہو تو پھر الجھن کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اس لئے اصل وجہ تو آپ کو تلاش کرنا ہوگی۔ اس کے لئے نفسیات کا مطالعہ از بس ضروری ہے۔ اس لئے جب بھی کوئی جوڑا آپ کے پاس آئے تو اس سے تنہائی میں الگ الگ باتیں کریں اور جواب نوٹ کرلیں۔سوالات کچھ اس قسم کے ہوتے ہیں۔
(1) شادی کب ہوئی تھی (2) شادی سے پہلے میاں بیوی جیسے تعلقات تھے (3) کیا شادی محبت کی بنیادوں پر ہوئی تھی (4) شادی کا پہلا سال کیسے گزرا (5) دوسرا سال
(6)اور پھر تیسرا سال یہاں تک آخری سال کی تفصیل معلوم کریں(7)جھگڑوں کی ابتدا کب ہوئی؟(8) جنسی زندگی کیسی ہے؟(9)جنسی طور پر وہ دونوں ایک دوسرے کو مطمئن کرتے ہیں یا نہیں ؟ (10)دونوں میں کوئی ایک کجروی میں مبتلا ہے یا نہیں؟(11) اولاد کتنی ہے ؟(13) اولاد کی موجودگی سےازدواجی زندگی پر کیا اثر پڑتا ہے؟
اس طرح تمام حالات معلوم کرنے کے بعد دونوں کو الگ الگ ہپناٹائز کر کے ان سےسوالات کریں۔ عام طور پر وہ باتیں جو آدمی اپنے لاشعور میں چھپا کر رکھتا ہے، عالم تنویم میں اگل رہتا ہے(یہاں پر ہیپناٹسٹ کو بہت ہوشیار رہنا چاہئے۔کبھی کبھی لا شعور پیناٹسٹ کو دھوکادینے کے لئے غلط باتیں بھی بتانا شروع کر دیتا ہے۔یہ ہپناٹسٹ کے نفسیاتی علم پر منحصر ہے کہ وہ اس کو سمجھ سکے۔ ممکن ہے شعوری حالت میں بیوی یہ جھوٹ کہہ رہی ہو کہ وہ جنسی طور پر آسودہ ہے مگر ہپناٹزم کے دوران وہ یہ ظاہر کر دے گی کہ وہ غیر آسودہ ہے۔ اس طرح شوہر بھی غنودگی میں اپنی جنسی الجھن کو نہ چھپا سکے گا۔ عامل کو چاہئے کہ خود کم بولے اور معمول کو بولنے دے تاکہ مریض کے لاشعور میں چھپے ہوئے رازوں کو باہر نکلنے کا موقع مل سکے۔جب مریض اپنے تمام واقعات کو بیان کر چکے تو پھر عامل کا کام ہے کہ ان واقعات کی کڑیاں جوڑے تاکہ صحیح صورت حال سامنے آجائے ورنہ محض براہ راست سجیشن دینے سے کوئی دوسری الجھن نمودار ہو سکتی ہے۔مثال کے طور پر ایک کیس درج کرتا ہوں۔ایک شوہر جس کی شادی کو چھ سال گزر چکے تھے، اپنے آپ کو بیوی سے انتہائی متنفر محسوس کرنے لگا اور باوجود کوشش کے بھی اس کو چاہ نہ سکا۔ بیوی اس کی اس تبدیلی سے پریشان تھی اور کوشش کرتی رہی کہ وہ دوبارہ اسے حاصل کر سکے۔شوہر اپنی تسکین کی خاطر دوسری عورتوں سے تعلقات بڑھانے لگا یہاں تک کہ اس نے دوسری شادی کرنے کا اعلان کر دیا۔مگر اس کا ضمیر اس کو یہ انتہائی قدم اٹھانے سے روکتا رہا اور وہ تذبذب میں مبتلا رہا۔ ایک طرف تو وہ بیوی کو چھوڑنا بھی نہیں چاہتا تھا کیونکہ اس کے دو بچے تھے اور وہ اپنی اہلیہ کو بے قصور بھی سمجھتا تھا۔ مگر دوسری طرف وہ اپنی اہلیہ سے مطمئن بھی نہ تھا بلکہ جنسی طور پر اس سے نفرت بھی کرنے لگا تھا۔وہ کہتا تھا۔ اس کے لئے اس کی اہلیہ میں کوئی جنسی کشش باقی نہیں رہی اور محض جنسی کشش کے فقدان کی وجہ سے وہ اس سے الگ نہیں ہونا چاہتا تھا۔وہ ایک ایسے دوراہے پر آکر رک گیا تھا جہاں پہنچ کر اس کے لئے یہ فیصلہ کرنا دشوار ہو گیا تھا کہ وہ کیا کرے۔کیا اہلیہ کو چھوڑ کر دوسری شادی کرلے؟ یا اس کو بھی رکھے اور دوسری بیوی بھی گھر میں ڈال لے یا پھر اسی طرح سے گزر کرتا رہے۔وہ چاہتا تھا کہ کسی طرح ایسا ہو جائے کہ وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ ہی زندگی بسر کر سکے۔اس کو اطمینان چاہئے تھا، محبت چاہئے تھی اور جنسی آسودگی کی آرزو تھی۔جب وہ ہپناٹزم کے لئے آیا تو اس نے کہا کہ اسےمنقلب کردیا جائے کہ وہ اپنی اہلیہ سے محبت کر سکے اور کسی دوسری عورت کو نہ چاہے۔ظاہر ہے کہ مریض خود اس بات کا متمنی تھا کہ وہ اپنی اہلیہ کو چاہے چنانچہ جب پیناٹزم کے ذریعے براہ راست سجیشن دے کر اسے اپنی اہلیہ سے محبت کرنے پر مجبور کیا گیا تو اس کانتیجه خاطر خواہ نکلا۔لیکن اب ایک اور الجھن نمودار ہو گئی۔وہ جنسی طور پر نامرد ہو گیا چنانچہ اس پر دوبارہ عمل کر کے اس کی خیالی نامردی کا علاج کیا گیا۔ سال بھر تک وہ بالکل درست رہا مگر آہستہ آہستہ پھر پہلی حالت پر آگیا۔وہی تنفر اور غیر آسودگی۔ اس کی اہلیہ کو چھ ماہ کے لئے اس سے الگ کر دیا گیا اور پھر اس پر عمل کر کے کہا گیا کہ وہ اپنی اہلیہ سے بری طرح محبت کرے گا۔ چنانچہ وہ اس کو واپس بلانے پر اصرار کرتا رہا۔ اس کی محبت میں بری طرح تڑپنے لگا۔ جب اس کا اصرار بہت بڑھ گیا تو اس کی اہلیہ کو واپس بلایا گیا۔ چند ماہ تک وہ بالکل ٹھیک رہا۔ اپنی اہلیہ کو چاہتا رہا مگر پھر اپنی حالت پر واپس آگیا۔ حالانکہ اس کی اہلیہ کو بھی ہدایت دی جا چکی تھی کہ وہ جنسی طور پر اس کا ساتھ دے مگر وہ اس کو پھر بھی نہ چاہ سکا اب اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھاکہ اس کی اصل الجھن کا کھوج لگایا جائے۔ چنانچہ جب اس پر عمل کیا گیا تو اس کی لاشعوری الجھنوں کا پتا چلا اور مندرجہ ذیل باتیں ظاہر ہوئیں۔ مریض بچپن سے محبت کا متلاشی تھا۔ مریض بچپن ہی میں بے توجہی کا شکار ہو گیا تھا۔اس کے والدین اگرچہ اپنی دانست میں اس سے محبت کرتے تھے مگر وہ یہ بھی محسوس کرتا تھا کہ اس سے نفرت کی جاتی ہے۔چنانچہ جب اس کی شادی ہوئی تو اس نے وہاں اسی محبت کو تلاش کیا جو اس کی آرزو تھی کہ اسے بری طرح چاہا جائے لیکن اس کی بیوی عام گھرانوں کی طرح ایک سیدھی سادی لڑکی تھی جو ازدواجی زندگی میں کسی ہنگاے کی متوقع نہ تھی۔بیوی کی جانب سے جذبات کی عمومی حیثیت بھی اس کے لئے تکلیف دہ ثابت ہوئی۔ وہ سمجھنے لگا کہ جس طرح بچپن میں وہ محبت سے محروم رہا ہے اسی طرح وہ اب بھی محروم ہے۔ان تمام حالات نے اس کے اندر اذیت پرستی کا رجحان پیدا کر دیا اور اسی رجحان کے پیش نظر وہ مختلف لڑکیوں سےمحبت کرتا اور جب وہ اس کی محبت کا دم بھرنے لگتیں تو وہ دوسری اور پھر تیسری لڑکی کو چاہنے لگتا۔اس کے ذہن میں ایک ندیدہ پن یا بلاخوری کا سا احساس پیداہو چکا تھا۔ایک نہ سیر ہونے والی طبیعت ایک غیر آسودہ احساس اس کی اہلیہ ہر ممکن طریقے سے اسے خوش کرنے کی سعی کرتی رہی لیکن وہ اس حقیقت کو نہ پاسکی کہ اس کا شوہر شدت جذبات کی وجہ سے کجرو ہو چکا ہے۔شوہر کے شدت جذبات اور مختلف لڑکیوں کے معاشقے نے اس کی بیوی کے اندر بھی جنسی جمود پیدا کر دیا۔اس جنسی سرد مہری نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور اس کا شوہر قطعی طور پر مایوس ہو گیا۔لہذا جب اس پر مسلسل عمل کر کے مجبور کیا گیا تو وہ جنسی طور پر ذہنی نامردی کا شکارہو گیا۔پھر اس کی اس نامردی کا علاج کیا گیا مگر سال بھر بعد وہ پھر پرانی حالت پر لوٹ آیا۔اس کے نزدیک اس کی اہلیہ اس قابل تھی ہی نہیں کہ اس سے جنسی قربت حاصل کی جائے چنانچہ اس کی اہلیہ کو چھ ماہ کے لئے الگ کر دیا گیا۔جب وہ اس کے بغیر تڑپنے لگا اور اس کا اصرار حد سے بڑھ گیا تو پھر دونوں کو اکٹھا کر دیا گیا۔کچھ عرصے تک وہ پر مسرت زندگی بسر کرتے رہے مگر تھوڑے ہی عرصے میں وہ پھر ایسا ہی ہو گیا جیسا کہ پہلے تھا۔اس لیے لازمی تھا کہ دونوں کا علاج کیا جاتا۔ایک طرف تو شوہر کی جنسی کجروی کو کم کیا جائے۔دوسری طرف اس کی اہلیہ کی سردمہری کا علاج کیا جائے۔اور یہی کیا گیا۔ آج وہ جوڑا ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہا ہے۔ شوہر بیوی پر جان چھڑکتا ہے اور اہلیہ اس پر مرتی ہے۔اس قسم کے ہزاروں کیس ہو سکتے ہیں۔جن پر براہ راست ہپناٹزم کا مستقل اثر نہیں ہوتا۔اس لئے ضروری ہے کہ تمام علالتوں کا علاج کیا جائے۔لیکن جو جوڑے محض چند ماہ کے بعد متنفر ہو جاتے ہیں اور کسی گہری الجھن کا شکار نہیں ہوتے۔انہیں ہپناٹزم کے ذریعے براہ راست درست کیا جا سکتا ہے۔
عورتوں کی جنسی علالتیں:
عام طور پر عورتیں جنسی امراض کا معالجہ کروانے نہیں آتیں اس لئے ان کا ذکر ہی فضول ہے البتہ اگر کسی عورت کو ملاپ سے درد ہو یا وہ سردمہری میں مبتلا ہے تو اس کی ہسٹری لینی بھی لازمی ہوتی ہے۔ملاپ کے دوران درد کی شکایت انہی عورتوں کو ہوتی ہے جو ملاپ کرنا نہیں چاہتیں۔ اس لئے اس کی وجہ معلوم کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح سرد مہری کا مرض بھی ملاپ سے نفرت یا شوہر سے نفرت کی بنا پر ہو جاتا ہے۔ اس لئے اس مرض کا علاج کر دینے سے مرض خود بخود دور ہو جاتا ہے۔
ہسٹریا:
عام طور پر ہیپناٹسٹ کے پاس جب کوئی ہسٹریا کی مریضہ لائی جاتی ہے تو اس کےلواحقین اسے آسیب زدہ یا جادو ٹونوں کے اثرات سمجھ کر لاتے ہیں۔وہ بیان کرتے ہیں کہ مریضہ پر سایہ ہے یا اس پر آسیب آتا ہے لیکن در حقیقت یہ سب کچھ ہسٹریا کا مرض ہوتا ہے۔میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ ہسٹریا کا علاج کرتے وقت بہت ہو شیاری کی ضرورت ہوتی ہے اورتنہائی میں تو کسی وقت مریضہ پر عمل نہیں کرنا چاہئے۔ہسٹریا کی مریضہ کسی گہری الجھن کا شکار ہوتی ہے۔شادی ہو جانے کے بعد بھی دورے برقرار رہتے ہیں اور کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہسٹریا کا آغاز ہی شادی کے بعد ہوتا ہے۔اس صورت میں ظاہر ہے کہ مریضہ شادی کے بعد ہی کسی جنسی الجھن کا شکار ہوتی ہے۔یا تو وہ جنسی طور پر غیر آسودہ ہے یا پھر شوہر کی بے توجہی کا شکار ہو گئی ہے۔ بہر حال جب مریضہ اپنی نارمل حالت میں ہو تو حسب معمول اس کو ہپناٹائز کیا جائے اور دوران غنودگی اس سے اس کی جنسی زندگی کے بارے میں سوالات کیے جائیں۔عام طور پر بڑی عجیب عجیب باتیں ظاہر ہوتی ہیں لیکن اگر آپ نفسیات سے واقف نہیں ہیں تو پھر براہ راست مریضہ کو عمل کےذریعے سجیشن دیں۔تم ایک نارمل عورت ہو۔ آج کے بعد تمہیں کبھی دورہ نہیں پڑے گا ۔ ” مریضہ کہتی ہے کہ اسے کوئی خاص جن یا پری نظر آتی ہے تو پھر اس سے کہیں کہ آج کے بعد اسے وہ صورت نظر نہیں آئے گی۔تم اب کبھی بھی خوف نہیں کھاؤ گی تمہارا ذہن صاف ہوچکا ہے۔ تمہارا آسیب بھاگ چکا ہے۔ وہ کبھی نہیں آئے گا، تم بالکل تندرست ہو چکی ہو۔جب تم جاگو گی تو اپنے آپ کو بالکل تندرست پاؤ گی” عام طور پر دویا تین بار عمل کرنے سےمریضہ صحت یاب ہو جاتی ہے۔ مگر ممکن ہے دو چار سال بعد کبھی کبھی دورہ پڑ جائے کیونکہ اس کی ذہنی الجھن تو برقرار رہے گی تاوقتیکہ اسے دور نہ کیا جائے۔ اس لئے لواحقین کو مریضہ کی شادی کی ہدایت کر دیں اور اگر مریضہ شادی شدہ ہے تو شوہر سے جنسی زندگی کے بارے میں معلومات حاصل کر کے اس کی اصلاح کی جائے۔
بری عادتوں کا علاج :ہپناٹزم کے ذریعے بہت سی بری عادتوں کا علاج باآسانی کیا جا سکتا ہے۔ انسان خودبری عادتوں سے تنگ آجاتا ہے مگر وہ اپنے آپ کو ان کا اتنا غلام بنا لیتا ہے کہ چاہنے کے باوجود ان عادتوں سے پیچھا نہیں چھڑا سکتا۔اس کے لئے ہپناٹزم ایک بہترین علاج ہے۔
سگریٹ نوشی:
اکثر لوگ سگریٹ چھوڑنا چاہتے ہیں مگر کوشش کے باوجود نہیں چھوڑ سکتے۔سگریٹ نوشی صرف تمباکو کی آرزو نہیں ہوتی بلکہ اس کے ساتھ دوسری چیزیں بھی وابستہ ہوتی ہیں۔ مثلاً سگریٹ سے انگلیاں مصروف رہتی ہیں۔منہ کو مصروف رکھنے کی عادت پڑ جاتی ہے (فرائیڈ کی نگاہ میں سگریٹ نوشی کا تعلق بھی جنسی ہے)بہر حال جب اس قسم کا مریض آئے تو اس کو حسب معمول ہپناٹائز کریں اور مندرجہ ذیل سجیشن دیں۔تم اب سگریٹ نہیں پی سکو گے۔تم کو سگریٹ سے جلے ہوئے ربڑ کی بو کی آئے گی۔لو میں سگریٹ دیتا ہوں تم پیو۔مگر تم کو سخت بدبو محسوس ہوگی (اس کے بعد مریض کو سگریٹ دیں۔ وہ کش لیتے ہوئے تھوکنے لگے گا کیونکہ بدبو آئے گی)اس سے پھر کہیں”یہ بدیو تم کو “ہمیشہ آئے گی۔تم کبھی سگریٹ نہیں پی سکو گے۔مریض کو جگا دیں اور جگا کر اسے سگریٹ دیں۔وہ اسے نہیں پی سکے گا اسے ہمیشہ ربڑ کے جلنے کی بو آئے گی۔
شراب:
شراب کی عادت بھی اسی طرح چھڑوائی جاسکتی ہے مگر اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ مریض اگر بہت پرانا عادی ہے تو پھر اس کی یہ عادت نہ صرف بہت پختہ ہوتی ہے بلکہ ضروری بھی ہو جاتی ہے اس لئے یہ عادت یکدم نہیں چھڑوائی جا سکتی کیونکہ طبی طور پرنقصان پہنچنے کا احتمال ہوتا ہے۔اس لئے بہت ضروری ہے کہ سنبھل کر علاج کریں۔اسے شراب سے دوران ہپناٹزم نفرت دلائی جاسکتی ہے۔اس سے کہیں کہ شراب خود سخت متعفن اور بدبودار ہوتی ہے۔اسے کسی ایسی چیز کا نام بتائیں جس کی بدبو ناقابل برداشت ہو۔عام طور پر مریض شراب سے نفرت کرنے لگے گا۔اسی طرح دوسری نشہ آور چیزوں کی عادت بھی چھڑوائی جاسکتی ہے۔تقریبا تمام بری عادتوں سےچھٹکارا دلانےکےلیےاس قسم کی سجیشن دی جاتی ہے کہ مریض کو اس عادت سے نفرت پیدا ہو جائے لہذاموقع محل دیکھ کر سجیشن دیں۔